ایس سی او کی مالی معاونت کی یقین دہانیاں، پاکستانی بینکوں کیلئےنئے مواقع کا آغاز
تیانجن(گوادر پرو) چین کی جانب سےعلاقائی اقتصادی انضمام اور ترقیاتی مالی معاونت کے لیے نئی یقین دہانیوں کے اعلان کے بعدشنگھائی تعاون تنظیم ( ایس سی او) کے تحت مالیاتی شعبے میں حالیہ پیشرفت نے پاکستانی بینکوں کے لیے نئے مواقع پیدا کر دیے ہیں۔ ان خیالات کا اظہارنیشنل بینک آف پاکستان ( این بی پی )کے نائب صدر اور بیجنگ میں چیف نمائندے شیخ محمد شارق نے کیا۔
شیخ محمد شارق نے ایس سی او کے تحت ترقیاتی فنانسنگ کے فروغ کے لیے چین کی جانب سے 2 ارب یوآن (تقریباً 281 ملین امریکی ڈالر) کی گرانٹ امداد اور آئندہ تین سالوں میں 10 ارب یوآن کے قرضوں کی فراہمی کا اعلان پاکستان سمیت تمام رکن ممالک کے لیے خوش آئند ہے۔
تیانجن میں ایس سی او کے سربراہان مملکت کی 25ویں کونسل کے اجلاس میں چینی صدر شی جن پنگ کی جانب سے اس سال 2 ارب یوآن (تقریباً 281 ملین ڈالر) کی گرانٹ امداد اور آئندہ تین برسوں میں ایس سی او انٹربینک کنسورشیم کے رکن بینکوں کو 10 ارب یوآن کے قرضے فراہم کرنے کے اعلان کو پاکستان سمیت تمام رکن ممالک کے لیے خوش آئند قرار دیا ۔ انہوں نے کہا کہ ایس سی او ڈویلپمنٹ بینک کے قیام کی تجویز نہ صرف پاکستان کے لیے لیکویڈیٹی اور منصوبہ جاتی سرمایہ کاری کے دروازے کھولے گی بلکہ مغربی مالیاتی اداروں پر انحصار بھی کم کرے گی۔
شارق کے مطابق پاکستانی بینکوں کو خطے میں تجارت، بنیادی ڈھانچے اور چھوٹے و درمیانے درجے کے کاروبار کے لیے قرضوں تک بہتر رسائی حاصل ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ چین، وسطی ایشیا اور روس کے ساتھ سرحد پار تجارتی مالی معاونت میں خاطر خواہ اضافہ متوقع ہے، جب کہ یوآن، روبل اور پاکستانی روپے میں مقامی کرنسیوں کے ذریعے لین دین زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ کم کرے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایس سی او تعاون کے تحت پاکستانی بینک بالخصوص ڈیجیٹل ادائیگیوں، بلاک چین ٹیکنالوجی، اور مصنوعی ذہانت کی بنیاد پر کریڈٹ اسکورنگ میں چینی مہارت سے استفادہ کر سکتے ہیں، ۔ ان شعبوں میں ترقی سے نہ صرف سبز مالیات اور ای ایس جی مصنوعات کو فروغ ملے گا بلکہ خاص طور پر وسطی ایشیا اور دیگر مسلم اکثریتی رکن ممالک میں اسلامی بینکاری کے میدان میں بھی نئی راہیں کھلیں گی، ۔
شیخ شارق نے اس بات پر بھی زور دیا کہ پاکستان کو چاہیے کہ وہ ایس سی او سے جڑے منصوبوں، بالخصوص سی پیک کے تحت، اجتماعی قرضوں اور علاقائی ادائیگی کے نظام میں بھرپور شمولیت اختیار کرے تاکہ مالیاتی شمولیت کو فروغ، لیکویڈیٹی میں بہتری اور سرمایہ کاروں کا اعتماد حاصل کیا جا سکے۔


