ایس سی او کے زرعی تعاون سے ترقی کی نئی راہیں ہموار
شیانیان (چائنا اکنامک نیٹ) بیجنگ میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہی اجلاس کے موقع پر ہونے والے بزنس ٹو بزنس (B2B) فورم کی تیاریاں عروج پر ہیں۔ اسلام آباد کی گرمی میں ماہر عبدالغفار شر ان تیاریوں میں مصروف ہیں فون کالز کر رہے ہیں اور شیڈول کو حتمی شکل دے رہے ہیں تاکہ پاکستانی کمپنیوں کو چینی سرمایہ کاروں اور مارکیٹ تک رسائی دلائی جا سکے۔ ان کے لیے یہ محض ایک اور کاروباری سفر نہیں بلکہ ایک ایسے سفر کا تسلسل ہے جو برسوں پہلے چین کے زرعی مرکز سے شروع ہوا تھا۔
شر نے چین کے صوبہ شانشی میں واقع نارتھ ویسٹ ایگریکلچر اینڈ فاریسٹری یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی۔ وہیں انہوں نے جدید بیجوں کی اقسام اور جدید آبپاشی کے نظام کا پہلی بار مشاہدہ کیا۔ اب پاکستان واپسی پر وہ ایک ایسی کمپنی چلا رہے ہیں جو مقامی کسانوں کو چینی منڈیوں سے جوڑتی ہے اور پاکستان کی زمین کے مطابق زرعی ٹیکنالوجی متعارف کروا رہی ہے۔
انہوں نے کہا نمک برداشت کرنے والی، زیادہ پیداوار دینے والی مکئی اور گندم کی اقسام ہمارے دیہاتوں کی تقدیر بدل سکتی ہیں۔ بہتر پیداوار کا مطلب ہے بہتر آمدنی، اور یہی غربت سے نجات کا راستہ ہے
شر کی کہانی ایس سی او کے تحت مضبوط ہوتی ہوئی ایک وسیع تر شراکت داری کا حصہ ہے، جو چین، روس، پاکستان، بھارت اور چار وسطی ایشیائی ممالک سمیت دس رکن ممالک پر مشتمل ہے۔ توانائی اور دفاع کے شعبوں سے آگے بڑھتے ہوئے، زرعی تعاون ایس سی او کے تحت سب سے عملی اور انقلابی شعبوں میں سے ایک بن کر ابھرا ہے۔
پاکستان کے لیے یہ شراکت داری پہلے ہی واضح نتائج دے رہی ہے۔ چین کے صوبہ شانشی کے یانگلنگ میں قائم ایس سی او زرعی ٹیکنالوجی ایکسچینج اینڈ ٹریننگ بیس میں اب تک 120 سے زائد زرعی ماہرین اور 140 سے زائد پی ایچ ڈی طلبہ تربیت حاصل کر چکے ہیں۔ گزشتہ سال وزیراعظم شہباز شریف نے چین کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے تحت 1,000 پاکستانی ماہرین کو جدید زرعی تکنیکوں میں تربیت دی جا رہی ہے۔
ان میں سے پہلا گروپ جولائی میں تین ماہ کی عملی تربیت مکمل کرنے کے بعد واپس آیا، جس میں لائیو اسٹاک جینیومکس، بیجوں کی تیاری، آبپاشی کے نظام، اور بیماریوں سے بچاؤ کی تربیت شامل تھی۔ تمام 1,000 ماہرین کی تربیت اس سال کے آخر تک مکمل ہو جائے گی۔
یہ کوشش صرف پاکستان تک محدود نہیں۔ ازبکستان میں، وسیع پیمانے پر ماڈل فارم قائم کیے گئے ہیں جہاں کپاس، سرسوں، سیب، انجیر اور مونگ پھلی سمیت 40 سے زائد فصلوں کی اقسام کا تجربہ کیا جا رہا ہے۔ چینی ماہرین مقامی کسانوں کو زمین کی زرخیزی بڑھانے، حیاتیاتی طریقوں سے کیڑے مار ادویات کے استعمال کو کم کرنے، اور شمسی توانائی سے چلنے والے آبپاشی نظام استعمال کرنے کی تربیت دے رہے ہیں۔
جولائی میں، ازبک صدر شوکت مرزیویف نے تاشقند میں ملک کے پہلے بین الاقوامی زرعی پارک کی منظوری دی، جسے یانگلنگ کے ساتھ شراکت داری میں قائم کیا جا رہا۔ یہ پارک اسمارٹ فارمنگ، مؤثر آبپاشی، اور زرعی پروسیسنگ کا مرکز بننے جا رہا ہے۔
قازقستان میں، شانشی کی ایئجو گرین اینڈ آئل انڈسٹریل گروپ نے بڑے پیمانے پر کنٹریکٹ فارمنگ کا آغاز کیا ہے۔ جس میں کسانوں کو بہتر بیج اور تکنیکی رہنمائی فراہم کی جاتی ہے، جبکہ کمپنی ان کی پیداوار خریدنے کی ضمانت دیتی ہے۔ آج یہ ماڈل 100,000 ہیکٹر زمین پر پھیلا ہوا ہے، جو آمدن کو مستحکم کرنے اور خوراک کی سپلائی چین کو مضبوط بنانے میں مدد دے رہا ہے۔ان منصوبوں کے نتیجے میں اب تک تقریباً ایک ہزار ملازمتیں پیدا ہو چکی ہیں، جب کہ قازقستان کا چین کے ساتھ اناج کا تجارتی حجم بھی نمایاں طور پر بڑھا ہے۔
ان منصوبوں کے مثبت اثرات نمایاں ہو چکے ہیں۔ وسطی ایشیا میں گندم کی نئی اقسام نے پیداوار میں 60 فیصد تک اضافہ کیا ہے، جبکہ اسمارٹ ایریگیشن سسٹم پانی کے استعمال کو آدھا کر چکے ہیں۔ کرغیزستان میں بونے سیبوں کے باغات فی کنال 300 کلوگرام زیادہ پیداوار دے رہے ہیں۔
دوسری جانب، یانگلنگ کا تجارتی مرکز اب 35 ممالک کی 1,200 سے زائد زرعی و دستکاری مصنوعات پیش کرتا ہے، جو تاجکستان سے روس تک ایس سی او کے رکن ممالک کو چینی منڈیوں تک براہ راست رسائی دیتا ہے۔ 2023 میں اس زون کی کل تجارت 1.34 ارب یوآن سے تجاوز کر گئی، اور چھ سال سے اس کی سالانہ ترقی کی شرح 20 فیصد سے زیادہ رہی ہے۔
ایس سی او دفتر شانشی کے اہلکار وانگ کا کہنا ہےرکن ممالک کی صلاحیتیں ایک دوسرے کی تکمیل کرتی ہیں۔ ان کے پاس زرخیز زمین اور جگہ ہے، جبکہ چین کے پاس جدید ٹیکنالوجی، مشینری، اور انتظامی ماڈلز ہیں۔ اس میں بے پناہ امکانات ہیں۔
یانگلنگ ایگریکلچرل ہائی ٹیک زون کے ایگزیکٹو ڈپٹی ڈائریکٹر، ہی لِنگ کے مطابق اگلا مرحلہ خصوصی تربیتی پروگرامز اور مزید دو طرفہ و کثیرالملکی منصوبوں پر مشتمل ہوگا۔ ہدف یہ ہے کہ آن لائن اور بالمشافہ کورسز کے ذریعے ہر سال 15,000 سے زائد زرعی حکام اور تکنیکی ماہرین کو تربیت دی جائے۔
یانگلنگ کا منصوبہ ہے کہ وہ ایس سی او کے شراکت داروں کے ساتھ مل کر زرعی مصنوعات کے تجارتی مراکز اور پروسیسنگ حب قائم کرے، تاکہ بیج، اعلیٰ معیار کے اناج اور دیگر زرعی اشیاء کی تجارت کو فروغ دیا جا سکے۔ اس کامقصد یہ ہے کہ علاقائی زرعی تجارت کو نئی بلندیوں تک پہنچایا جائے اور کسانوں کو عالمی غذائی منظرنامے میں کامیاب ہونے کے لیے ضروری وسائل فراہم کیے جائیں۔


