چینی کمپنیاں پاکستان کے ساتھ زرعی شعبے میں تعاون کی خواہاں
بیجنگ (چائنا اکنامک نیٹ)چینی ایگری ٹیکنالوجی کمپنیاں پاکستان کے زرعی مسائل، خاص طور پر پانی کی قلت اور سیم و تھور کا شکار زمینوں کی بحالی، کے حل کے لیے شراکت داری کی خواہاں ہیں ۔
بیجنگ میں جاری تیسری چائنا انٹرنیشنل سپلائی چین ایکسپو (سی ۤئی ایس سی ای ) کے چینی کمپنیوں نے ایسی ٹیکنالوجیز پیش کیں جو وہ پاکستان کے زرعی ماحول کے لیے موزوں سمجھتی ہیں، اور جو مقامی کسانوں اور قومی فوڈ سپلائی چین کو فائدہ پہنچا سکتی ہیں۔
چینی کمپنی شیاؤما آئی او ٹی" (Xiaoma IoT) نے اسمارٹ ایگریکلچر سلوشنز متعارف کروائے ہیں جو پانی اور کھاد کی بچت کے ساتھ ساتھ پیداوار میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ کمپنی کے نمائندے نے چائنا اکنامک نیٹ (سی ای این)کو بتایا کہ رواں سال کے آغاز میں کمپنی نے پاکستان سے پہلا آرڈر حاصل کیا ہے، جس کی مالیت 50 ہزار امریکی ڈالر ہے۔ اس آرڈر میں ڈیجیٹل والوز اور واٹر-فرٹیلائزر سسٹمز شامل ہیں۔
یہ ٹیکنالوجی کسانوں کو ایک اسمارٹ پلیٹ فارم کے ذریعے آبپاشی اور کھاد کی فراہمی کو کنٹرول کرنے کی سہولت دیتی ہے، جو مٹی میں نمی اور غذائیت کی سطح کو حقیقی وقت میں مانیٹر کرتا ہے۔ اس طرح فصل کو اس کی ضرورت کے مطابق وسائل فراہم کیے جاتے ہیں، جس سے پانی اور کھاد کی بچت ممکن ہوتی ہے۔
کمپنی، جو اپنا ہارڈویئر اور سافٹ ویئر خود تیار کرتی ہے، نے بتایا کہ پاکستان سے مزید شراکت داروں کی جانب سے کاروباری دلچسپی کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔
دوسری جانب چینی کمپنی گویووگو (Guiwugu) نے سیم و تھور زدہ زمین کو قابلِ کاشت بنانے کے لیے ایک انوکھا قدرتی ماڈل پیش کیا ہے۔ کمپنی کے بانی نی لی بن کے مطابق، اس ماڈل کے تحت کری فِش (ایک قسم کی آبی مخلوق) کو زمین پر موجود پانی میں چھوڑا جاتا ہے، جو وقت کے ساتھ مٹی کی نمکیات کو کم کرتی ہے۔ بعد ازاں، اس زمین پر چاول کی کاشت کی جاتی ہے، اور کری فِش اور چاول کو ایک ساتھ پالا جاتا ہے، جس سے ایک ہم آہنگ اور قدرتی نظام وجود میں آتا ہے۔
گویووگو کے بانی نی لی بن نے سی ای این کو بتایا کہ کری فِش قدرتی طور پر کیڑے مارنے کا کام کرتی ہیں جبکہ ان کا فضلہ چاول کے کھیتوں کے لیے قدرتی کھاد بنتا ہے، جو چاول کی پیداوار کو کم کیے بغیر اس کے معیار میں بہتری لا سکتا ہے۔
خوراک اور زراعت کی عالمی تنظیم (FAO) کی ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان کی 2.2 کروڑ ہیکٹر زرعی زمین میں سے 66.7 لاکھ ہیکٹر زمین سیم و تھور کی وجہ سے ناقابلِ استعمال ہو چکی ہے، جو کہ کل زرعی رقبے کا 30 فیصد بنتا ہے۔
اقوامِ متحدہ کی خوراک اور زراعت کی تنظیم (ایف اے او)کے مطابق پاکستان اپنی 30 فیصد زرعی زمین، یعنی 66.7 لاکھ ہیکٹر رقبہ، سیم و تھور کی وجہ سے ناقابلِ استعمال ہو چکا ہے ۔
گویووگو کے بانی کا کہنا ہے کہ یہ ماڈل پہلے ہی چین کے شمال مشرقی علاقوں میں کامیابی سے استعمال ہو رہا ہے اور اسے سنکیانگ میں بھی آزمایا جا رہا ہے، جو آب و ہوا کے لحاظ سے پاکستان کے کچھ علاقوں سے مشابہ ہے۔ ان کے مطابق، پاکستان کے زرعی علاقے سردیوں میں اس ماڈل کے لیے موزوں موسم رکھتے ہیں۔
