پاکستان کو فیڈ کی شرح میں اضافے کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا
اسلام آباد (گوادر پرو) امریکی مرکزی بینک، فیڈرل ریزرو (Fed) نے کلیدی شرح میں مزید 0.75 فیصد پوائنٹس کا اضافہ کر دیا جس سے مرکزی بینک کے بینچ مارک راتوں رات سود کی شرح 3.00 سے 3.25 فی صد تک بڑھ گئی ہے۔ فیڈ نے مسلسل تیسری بار شرح سود میں اضافہ کیا ہے، افراط زر کو کم کرنے کے لیے شرح سود کو تقریباً 15 سالوں میں بلند ترین سطح پر دھکیل دیا ہے۔ تاہم امریکہ میں اعلی پالیسی کی شرح پاکستانی روپے سمیت دیگر کرنسیوں کو کمزور کرے گی، اور افراط زر کا دباؤ بڑھے گی، جس سے اسلام آباد کے لیے ذخائر کو بڑھانا مشکل ہو جائے گا۔
فیڈرل ریزرو کے چیئرمین جیروم پاول کے مطابق شرح میں اضافہ ''مہنگائی کے خاتمے '' اور معیشت کو طویل مدتی نقصان سے بچنے کے لیے ضروری تھا لیکن اس کا نقصان ہوگا۔ ''کاش ایسا کرنے کا کوئی بے درد طریقہ ہوتا لیکن وہ ہے نہیں ۔
پاکستان کے اعلیٰ اقتصادی ماہرین کا خیال ہے کہ فیڈرل ریزرو کا یہ اقدام امریکی کرنسی کو مضبوط کرے گا لیکن اس کے دنیا بھر کے ترقی پذیر ممالک اور جدوجہد کرنے والی معیشتوں پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ اضافے کے ساتھ ترقی پذیر ممالک پورٹ فولیو سرمایہ کاری سے محروم ہو جائیں گے جسے امریکہ کی طرف موڑ دیا جائے گا۔
معروف ماہر اقتصادیات ڈاکٹر اشفاق حسن خان نے گوادر پرو کو بتایا پیسہ امریکہ کی طرف ڈالر کی قیمت والے اثاثوں میں جائے گا۔ یہ ڈالر کو مضبوط کرے گا اور اس کے مطابق پاکستانی روپے سمیت دیگر کرنسیوں کو کمزور کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان بانڈز کے ذریعے پیسہ اکٹھا کرنے کے لیے بین الاقوامی منڈی میں جانا چاہتا ہے تو ملک کو اس کی ''زیادہ قیمت'' ادا کرنی پڑے گی۔
ماہر اقتصادیات اور وزیر اعظم کی اقتصادی مشاورتی کونسل کے سابق رکن ثاقب شیرانی نے کہا کہ جب بھی یو ایس فیڈ شرح سود میں اضافہ کرتا ہے، وہ دنیا بھر سے سرمایہ کو امریکی خزانوں کی طرف راغب کرتا ہے اور یہ سرمایہ ابھرتی ہوئی منڈیوں یا ترقی پذیر ممالک کے لیے دستیاب نہیں ہے۔ شیرانی نے گوادر پرو کو بتایا لوگ اب ابھرتی ہوئی مارکیٹوں میں سرمایہ کاری کرنے یا ابھرتی ہوئی مارکیٹوں کو قرض دینے کے بجائے اپنی سرمایہ کاری اور سرمایہ امریکہ کی طرف موڑ رہے ہیں، شیرانی نے گوادر پرو کو مزید بتایا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان جیسے ممالک امداد حاصل کرنے کے قابل نہیں ہیں یا تجارتی قرضے اور بین الاقوامی منڈی میں اپنے بانڈز کو اس حد تک فلوٹ کرنے کے قابل نہیں ہیں جیسا کہ وہ امریکی فیڈرل ریزرو کی جانب سے شرح سود میں اضافہ کرنے سے پہلے کر سکتے تھے۔
امریکی فیڈرل ریزرو کی جانب سے شرح سود میں اضافے اور مزید اضافے کے بعد جمعرات کو پاکستان سمیت ایشیائی منڈیوں میں کمی کے ساتھ ساتھ تیل کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا۔
سینئر ماہر اقتصادیات اور ٹی وی میزبان شہباز رانا نے گوادر پرو کو بتایا کہ پاکستان کو بیرونی قرضوں کی ادائیگی اور اپنے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے رواں مالی سال میں تقریباً 40 بلین ڈالر قرض لینے یا حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ شرح سود میں اضافے سے نہ صرف پاکستان کے لیے قرض لینے کی لاگت بڑھے گی بلکہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے لیے ذخائر بھی مشکل ہو جائے گا اور مزید کہا کہ ترقی پذیر ممالک ''امریکہ کے فیڈ کی شرح میں اضافہ کے بعد سرمایہ کاروں کو کھو دیں گے۔
92 نیوز کے اقتصادی نمائندے اکرام ہوتی نے گوادر پرو کو بتایا کہ کووڈ 19 کے بعد لوگ مارکیٹوں میں سرمایہ کاری کرنے کے بجائے بینکوں سے سود کی صورت میں زیادہ منافع حاصل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ شرح میں اضافے سے پاکستان کے بیرونی قرضوں کی قدر میں اضافہ ہوگا جبکہ ڈالر کے لحاظ سے معیشت کا حجم کم ہوگا۔ ڈالر کی قدر میں اضافے سے پاکستانی برآمد کنندگان کے لیے بین الاقوامی منڈیوں میں مقابلہ کرنا مشکل ہو جائے گا جبکہ درآمدات مزید مہنگی ہو جائیں گی جس سے درآمدی بلوں میں اضافہ ہو گا،روپے کی قدر میں کمی سے بیرونی قرضوں سے جی ڈی پی کے تناسب میں بھی اضافہ ہوگا جو بیرونی ممالک سے قرض لینے کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ ہوتی نے کہا کہ اگر قرض کی سروس کے لیے زیادہ فنڈز مختص کیے جائیں تو ترقیاتی اخراجات کے لیے کم فنڈز دستیاب ہوں گے۔
اکرام ہوتی نے کہا کہ پالیسی ریٹ میں اضافہ بہت سے ترقی پذیر ممالک کے حق میں نہیں ہے۔ مثال کے طور پر بین الاقوامی مالیاتی ڈھانچہ غیر ملکی کرنسی خسارے کے حوالے سے پاکستان اور سری لنکا جیسے ممالک کی مدد کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔