پاک چین محققین کا گندم کی نئی اقسام کے لیے تعاون
ملتان (چائنا اکنامک نیٹ) ہم اپنی مقامی گندم کے ساتھ زیادہ پیداوار دینے والے اور خشک سالی کا مقابلہ کرنے والی چینی گندم کے جرم پلازم کے ملاپ کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایک بار مکمل ہونے کے بعد، ان سے لاگت میں 13 فیصد کمی اور کسانوں کی آمدنیمیں 25 سے 27 فیصد اضافہ متوقع ہے۔ یہ بات بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے پروفیسر ڈاکٹر حبیب الرحمان اطہر نے بتائی۔
وہ چین پاکستان بائیو ہیلتھ ایگریکلچر اور سی سائنس ٹیکنالوجی ڈیمونسٹریشن پا رک پروجیکٹ کے تحت چین کی نارتھ ویسٹ اے ا ینڈ ایف یونیورسٹی کے محققین کے ساتھ کام کر ر ہے ہیں۔
امید ہے کہ اگلے 3 سے 4 سالوں میں، ہمیں پاکستانی اقسام میں چینی جرم پلازم کی شمولیت کے واضح نتائج حاصل ہوں گے۔
گزشتہ تین سالوں کے دوران دونوں فریق مشترکہ طور پر مقالے شائع کر رہے ہیں، سائنسی دوروں کا تبادلہ کر رہے ہیں، اور ریسرچ پروجیکٹ جمع کر رہے ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر حبیب الرحمان اطہر نے بتایا کہ گندم کی تحقیق کے لیے ہمارا گروپ 34 طلباء پر مشتمل ہے جس میں انڈر گریجویٹ، ماسٹرز اور ڈاکٹریٹ کے امیدوار شامل ہیں۔
ہماری ترجیح یہ ہے کہ تناؤ کو برداشت کرنے والی گندم کی کاشت کی اسکریننگ اور مقامی جرم پلازم کے ساتھ ساتھ غیر ملکی کا انتخاب کرکے ان کی شناخت کی جائے۔ چینی جرم پلازم کے درمیان، پانچ لائنیں پیداوار اور برداشت کے لحاظ سے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتی پائی گئی ہیں۔ گندم کی کاشت ایس 24 بین الاقوامی تحقیقی اداروں بشمول بین الاقوامی مکئی اور گندم کی بہتری کے مرکز ( سی آئی ایم ایم وائی ٹی) سے تصدیق شدہ ہے اور یہ ثابت ہوا ہے کہ یہ زیادہ پیداوار دینے والا اور نمک کے دباؤ کو برداشت کرتا ہے۔ اگلے مرحلے میں، وہ اسے دوسری کاشت کے ساتھ ملاپ کرانے جا رہے ہیں جو درمیانی اونچائی اور زنگ کے خلاف مزاحم ہیں۔
یہ گروپ چینی نینو کھادوں اور نینو بائیوچار کو پاکستانی گندم کی اقسام پر استعمال کرنے کے لیے بھی کام کر رہا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر حبیب الرحمان اطہر نے چائنہ اکنامک نیٹ کو بتایا کہ گندم پاکستان کی نمبر ون غذائی فصل ہے۔ گزشتہ 10 سالوں کے دوران تقریباً 15 لائنیں لگائی گئی ہیں، لیکن چونکہ اب ہمارے پاس چینی جرم پلازم ہے ہم ان کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا ہمارا مقصد پیداوار میں 2.7 فیصد اور فیزیالوجیکل کارکردگی میں 27 فیصد اضافہ کرنا ہے۔ کسان چین پاکستان بائیو ہیلتھ ایگریکلچر اور سی سائنس ٹیکنالوجی ڈیمونسٹریشن پا رک کے ساتھ تجربات اور حقیقی کاشت کو دیکھ سکتے ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر حبیب الرحمان اطہر نے کہا کہ یہ نہ صرف کسانوں کی پیداوار میں اضافہ کرے گا بلکہ پاکستان کی فوڈ سیکیورٹی میں بھی اہم کردار ادا کرے گا۔
