En

چینی محقق کا پاکستان میں برفانی چیتے کے مشترکہ تحفظ پر زور

By Staff Reporter | Gwadar Pro Nov 23, 2021

 بیجنگ :چین اور پاکستان کے درمیان سرحد برفانی چیتے  کا  ایک اہم مسکن ہے۔ چائنا اکنامک نیٹ  ک  کو  خصوصی انٹرویو میں ہبی نرمل یونیورسٹی کے پروفیسر لی ڈونگ منگ نے کہا کہ دونوں ممالک کو پائیدار حیاتیاتی تنوع کے لیے اس علاقے کی حفاظت کے لیے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔حال ہی میں  ان کی ٹیم  جس میں تین پاکستانی محققین شامل تھے، نے سائنس پر ایک ای لیٹر آر ٹیکل  شائع کیا جس کا عنوان تھا ''پاکستان میں برفانی چیتے کو  خطر ات لاحق ''۔  2018 میں شائع ہونے والے مضمون ''برفانی چیتے کی قابل اعتراض واپسی'' پر تبصرہ کرتے ہوئے، ایـخط  میں  انسان  اور  برفانی چیتے کے تنازعہ کی بنیادی وجوہات کا تجزیہ کیا اور اس قیمتی نوع کے تحفظ کے لیے اقدامات تجویز کیے ہیں۔ برفانی چیتے، جسے ''پہاڑوں کا بھوت'' بھی کہا جاتا ہے، ہمالیائی الپائن لینڈ سکیپ کی سب سے بڑی نسل ہیں۔ عالمی سطح پر دیکھا جائے تو اندازے کے مطابق تقریباً 8000 برفانی چیتے اب بھی زندہ ہیں۔ ان میں سے تقریباً 400 پاکستان میں مقیم ہیں، خاص طور پر خنجراب نیشنل پارک اور آس پاس کے الپائن علاقوں میں۔ پروفیسر لی نے متعارف کرایا ایک جدید شکاری کے طور پر، بڑے فیلائن جانور فوڈ چین میں اہم ہیں کیونکہ وہ اپنے شکار کی مستحکم آبادی کو برقرار رکھنے میں مثبت کردار ادا کرتے ہیں،  جیسے کہ  جنگلی   مار خور ۔  پروفیسر لی نے  سی ای این کو  بتایا کہ ہم نے پاکستانی برفانی چیتے پر اپنی تحقیق 2020 میں شروع کی، جب ڈاکٹر شاہد احمد ماحولیات پر پوسٹ ڈاکٹریٹ اسٹڈیز کے لیے ہمارے مرکز میں شامل ہوئے۔  بیجنگ فاریسٹری یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی  کی  ڈگری کے ساتھ  وہ طویل عرصے سے پاکستان میں برفانی چیتے اور جنگلی بکریوں کے تحفظ حیاتیات کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ یونیورسٹی میں پاکستانی  ٹیچرغلام نبی اور کوہاٹ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے توحید اللہ خان بھی تحقیق کے لیے مصروف عمل ہیں۔ ان کے مطالعے کے مطابق  چار عوامل پاکستان میں انسا ن  اور  برفانی چیتے کے درمیان  تنازعہ کو بڑھا رہے ہیں۔ سب سے پہلے، موجودہ ٹرافی ہنٹنگ پالیسی نے شکار کی دستیابی کو کم کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں برفانی تیندوے زیادہ مویشیوں پر حملہ کرنے، غیر قانونی شکار اور انتقامی قتل کے واقعات کو ہوا دیتے ہیں۔دوسری بات یہ ہے کہ جانوروں کے تحفظ کے بارے میں عوام میں کم آگاہی  ہے۔ یہاں تک کہ کچھ سرکاری افسران، بااثر افراد اور رہائشی برفانی چیتے کے شکار میں ملوث ہیں۔ تیسرا، چونکہ برفانی چیتے کے کچھ اعضاء اور بافتیں ادویات کے اہم ذرائع ہیں، اس لیے غیر قانونی شکار اکثر ہوتا ہے، جو دوسرے ممالک کے ساتھ جنگلی حیات کی غیر قانونی تجارت سے بڑھ جاتا ہے۔  چوتھا، برفانی چیتے کے رہنے کی جگہ جنگلات کی کٹائی، مسکن ختم ہونے  اور موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں سکڑ رہی ہے، جس سے ان کی بقا کو بالواسطہ خطرات لاحق ہیں۔ ای لیٹر اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ انواع کے تحفظ کو تقویت دینے کے لیے زہریلے شکار کو مؤثر طریقے سے ختم کیا جانا چاہیے۔ مزید برآں، غیر قانونی شکار کو روکنے کے لیے جرمانے اور ماحولیاتی معاوضے جیسے اقدامات کو فوری طور پر نافذ کیا جانا چاہیے۔ عوام کو حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کے بارے میں بھی آگاہ کیا جانا چاہیے۔ چین میں برفانی چیتے کی آبادی عالمی آبادی  کا 40 سے 50 فی صد  ہے، لیکن وہ بنیادی طور پر کم آبادی والے علاقوں جیسے چنگھائیـزیزانگ سطح مرتفع اور پامیر میں پائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ، جیسا کہ حفاظتی اقدامات تیز ہو رہے ہیں اور لوگوں کی بیداری میں اضافہ ہو رہا ہے، انسان اور برفانی چیتے کا تصادم نایاب ہے۔ جنگلی حیات کے تحفظ اور استعمال کے درمیان توازن کے بارے میں بات کرتے ہوئے  پروفیسر لی نے کہا جنگلی حیات کا تحفظ اور استعمال بظاہر ایک دوسرے سے متصادم نظر آتا ہے، لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ حیاتیاتی تنوع انسانی وجود کی بنیاد ہے۔ صرف نایاب اور خطرے سے دوچار پ اقسام   اور ان کے مسکن  کے تحفظ سے ہی آنے والی نسلیں حیاتیاتی تنوع کے ممکنہ فائدے سے لطف اندوز ہو سکتی ہیں۔ جیسا کہ COP 15 میں اظہار خیال کیا گیا ہے،  حیاتیاتی تنوع کی حفاظت زمین کی حفاظت میں مدد کرتی ہے  اور انسانیت کی پائیدار ترقی میں حصہ ڈا لتی ہے۔پروفیسر لی نے کہا تعاون کے ساتھ ہم برفانی چیتے جیسے نایاب اور خطرے سے دوچار جانوروں کے مسکن پر 'بیلٹ اینڈ روڈ' کے اثرات کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ تعمیراتی عمل میں  ہم کچھ جنگلی حیات کے لیے مختلف بکھری ہوئی رہائش گاہوں کو جوڑنے والی حیاتیاتی راہداری بنا سکتے ہیں ۔

  • comments
  • give_like
  • collection
Edit
More Articles