گوادر کی مقامی حکومت کی گارڈین رپورٹ کی مذمت ، قانونی کاروائی کا حق رکھتے ہیں
اسلام آباد:گوادر میونسپل کمیٹی کے سربراہ نے گارڈین کی اس رپورٹ کی مذمت کرتے ہوئے ایک وضاحتی خط جاری کیا ہے جس میں گمراہ کن ، بدنیتی پر مبنی اور غلط معلومات پھیلا کرچینی اور پاکستانی عوام کے درمیان تعلقات کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو کہ گوادر کے لوگوں کی اکثریت کی مرضی کے خلاف ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ آپ کی رپورٹ نے ہماری ساکھ کو نقصان پہنچایا، گوادر کی ترقی پر منفی اثر ڈالا اور اس سے ہمیں نقصان ہوا۔ گوادر پرو کے مطابق حکومت نے خط میں اعلان کیا ہے کہ ہم قانونی کارروائی کا حق رکھتے ہیں۔ گوادر کے لوگ چینی حکومت اور کمپنیوں کی طرف سے فراہم کی جانے والی مدد پر بہت شکر گزار ہیں،'' ا نہوں نے مزید کہا کہ جاری منصوبوں، جیسے گوادر پورٹ اور گوادر فری زون ڈویلپمنٹ، نیو انٹرنیشنل ایئرپورٹ گوادر، گوادر ووکیشنل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ، چین ـپاکستان فرینڈ شپ ہسپتال، اور بہت سے دوسرے نہ صرف مقامی کمیونٹی کے لیے فوری طور پر روزگار لائیں گے بلکہ گوادر کے ناقص انفراسٹرکچر کو بھی بہتر بنائیں گے۔ گوادر پرو کی ایک رپورٹ کے مطابق 2013 میں گوادر پورٹ متروک سہولیات کے ساتھ ویران ہونے کے دہانے پر تھا، بمشکل سمندری بندرگاہ سے کاروبار بچ گیا ۔ جب سے چائنا اوورسیز پورٹ ہولڈنگ کمپنی (COPHC) نے بندرگاہ سنبھالی ہے، بنیادی ڈھانچے کا کام تین 20 ہزار ٹن کثیرالمقاصد برتھ اور 140000 مربع میٹر کے سٹوریج یارڈ کے ساتھ مکمل ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ گوادر پورٹ سے افغانستان ٹرانزٹ ٹریڈ کا کامیاب آپریشن اس تجارتی نیٹ ورک کو وسطی ایشیا اور روس تک بڑھانے کی بنیاد رکھتا ہے۔ حال ہی میںگوادر فری زون میں کچھ اہم سرمایہ کاری اور ترقی بھی دیکھی ہے۔ ہوٹلوں، بینکنگ، لاجسٹکس، بیرون ملک گوداموں، اناج اور تیل کی پروسیسنگ، اور ماہی گیری کی پروسیسنگ میں شامل 40 سے زائد کاروباری اداروں نے فری زون میں خود کو رجسٹرڈ کروایا ہے، جس سے مجموعی طور پر 90 ملین امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی ہے۔ ترقی پذیر بندرگاہ اور فری زون نے مجموعی طور پر گوادر شہر کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی کو آگے بڑھایا ہے۔ مثال کے طور پر سی پیک پروجیکٹ کے تحت ایسٹ بے ایکسپریس وے گوادر پورٹ کو میکران کوسٹل ہائی وے (Nـ20) سے جوڑتا ہے اس سے بندرگاہ سے Mـ8 تک براہ راست کارگو کراچی اور ملک کے باقی حصوں میں لے جا ئی جا سکے گی ۔ چھ لین موٹر وے پر 94 فیصد کام مکمل ہو چکا ہے اور اس سال اکتوبر میں اس کا افتتاح کیا جائے گا۔ بیان میں نشاندہی کی گئی کہ بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے باوجو دپانی اور بجلی تاریخی وجوہات کی وجہ سے ایک مسئلہ رہا ہے اور یہ بالکل چینیوں کی ذمہ داری نہیں ہے ۔ چینی کمپنیاں اپنے کیپٹی واٹر پلانٹ سے مقامی کمیونٹی کو 100000 سے 200000 گیلن پانی فراہم کرنے میں کامیاب ہو چکی ہیں۔ خط کے مطابق گارڈین کی رپورٹ میں اس سے زیادہ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ نیوز رپورٹر 20 اگست 2021 کو ہونے والے دہشت گردانہ حملے کا بہانہ ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا ہے ، جو انسانوں کے خلاف انتہا پسندانہ کارروائی ہے اور گوادر کے تمام لوگوں نے اس کی مذمت کی ہے۔ رپورٹ میں دہشت گرد گروہوں کو گوادر کے عام لوگوں کے مساوی اور انہیں مقامی لوگوں کا نمائندہ قرار دیا گیا ہے، دعویٰ کیا گیا ہے کہ گوادر میں چین کی موجودگی نے چین مخالف جذبات کو جنم دیا ہے اور اس نے بلوچ عسکریت پسند باغی گروہوں کو ایک حوصلہ دیا ہے، جبکہ رواں سال بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) کی طرف سے چینی کارکنوں پر کئے گئے حملے اور دیگر سانحات کا بھی حوالہ دیا گیا ہے ۔رپورٹ کا بیانیہ متاثرین کو تلاش کرنے سے کم نہیں ہیں بلکہ مجرموں کو ان کے طرز عمل کے لیے مجرم ٹھہرایا جاتا ہے۔ جہاں تک ''چینی ٹرالرز'' کے مبینہ الزام کا تعلق ہے، جسے مغربی میڈیا مہینوں سے مقامی لوگوں سے چینی لوگوں کو الگ کرنے کے لیے لپیٹ رہا ہے، بار بار بے بنیاد ثابت ہوا ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں۔ چینی ٹرالرز بھارتی مون سون کی وجہ سے گوادر پورٹ پر پناہ کے لیے لنگر انداز ہیں۔ اس کی جانچ پڑتال کی گئی اور دکھایا گیا کہ پاکستان کے پانی میں سے ایک بھی مچھلی نہیں پکڑی گئی۔
