En

کووڈ  ۔19 پر سیاست اور منفی پروپیگنڈہ وائرس سے کہیں زیادہ مہلک ہے

By Staff Reporter | Gwadar Pro Jul 28, 2021

بیجنگ: سائنسی بنیادوں پر ثابت شدہ حقیقت  پر بھروسہ کیے بغیر کوویڈ 19وبا اور اس کی ابتدا پر سیاست اور منفی پروپیگنڈہ خود وائرس سے کہیں زیادہ مہلک اور متعدی ہے۔ گوادر پرو کے ایک مضمون کے مطابق عالمی سطح پر چین کے خلاف جاری  تناواور الزام  کی  مہم  قابل مذمت   اور تکلیف دہ ہے، ایک خود مختار ملک کی حیثیت سے  چین کو دوسرے ممالک کے طرز عمل پر ایک ہی وقت میں سوال اٹھانے  کا  حق ہے ۔  تقریبا 10 ملین افراد نے  ڈبلیو ایچ او سے   امریکہ میں لیب لیک کی تحقیقات کے  مطالبے  کی    درخواست پر دستخط کیے ہیں کیونکہ امریکہ اور ا س کے اتحادیوں نے عراق   جنگ پر دنیا کو یقین دلانے کی تاریخ رقم کی  لیکن وہاں  کوئی ثبوت نہیں ملا۔ مضمون انسٹی ٹیوٹ آف پیس اینڈ ڈپلومیٹک اسٹڈیز (آئی پی ڈی ایس) کے ڈائریکٹر   محمد آصف نور  نے اپنے مضمون میں کہا کہ کوویڈ 19 وباء  انسانیت کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج ہے اور اس  ٹرائل کو ایک دوسرے کے ساتھ بانٹنے کے لئے عالمی ذمہ داری کی ضرورت ہے۔ تاریخ ان عوامل اور انسانیت کو ہمیشہ یاد رکھے گی ، کبھی بھی دنیا کو  اس خطرناک وائرس  سے نجات د لانے  میں کوتاہی کو معاف نہیں کرے گی۔ سچائی جلد یا بدیر سامنے آ جائے گی اور خاص طور پر ان کے اپنے ممالک میں عالمی سطح پر  وائرس  کی غلط تشہیر کے  نتائج سامنے آرہے ہیں  ۔ حال ہی میں  ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) نے چین میں کوویڈ 19   وبائی امراض کی ابتدا کی تحقیقات کے لئے دوسرے مرحلے کے منصوبے کی تجویز پیش کی ہے یہاں تک کہ چین  نے ڈبلیو ایچ او کے پہلے مرحلے کی تحقیقات میں ڈبلیو ایچ او کے عہدیداروں کے ساتھ پوری ایمانداری کے ساتھ مکمل تعاون کیا ہے۔  یقینا اس منصوبے کو چینی حکام نے واضح  سیاسی نوعیت کی بنا پر مسترد کردیا ۔ یہ منصوبہ عام فہم اور منطق دونوں پر بھی کم پڑا ہے۔ ڈبلیو ایچ او  کا  دوسر ا مرحلہ  وائرس کی اصلیت کا سراغ لگانے کے پہلے مرحلے میں جمع شدہ شواہد کی بنیاد پر اور سائنسی اصولوں اور قواعد کے مطابق ہونا چاہئے۔ اس لحاظ سے منطقی اگلا مرحلہ یہ ہو گا کہ وہ تحقیقات کو صرف چین پر مرکوز کرنے کی بجائے امریکہ سمیت دیگر ممالک تک پھیلائے  گا ، جیسا کہ قومی صحت کمیشن کے چینی نائب وزیر (این ایچ سی) اور سینئر سائنس دانوں نے اپیل کی ہے۔ اس طرح معروضی سچائی اور حقیقت عیاں  ہو جائے   گی۔چین  2019 کے آخر میں ووہان  حکام   کی جانب سے  وائرس  کے علان سے  ہی   وائرس کے بارے میں ڈبلیو ایچ او اور دنیا کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے اور چینی عوام نے   تمام تر مشکلات کے خلاف  بہادری اور طاقت کے ساتھ مقابلہ کیا اور  تمام کوششوں کیساتھ  وائرس پر قابو پالیا جب کہ انہوں نے حوصلے  بلند رکھے جب کہ سخت متاثرہ فرنٹ لائن والے ملک کو اتنی بڑی آفت کا سامنا کرنا پڑ ا۔  خود کورونا کیخلاف  جنگ جیتنے  کے بعد  چین نے سخت  شکار ممالک کے لئے طبی سامان مہیا کیا، ان میں سے پاکستان پہلے چند ممالک میں شامل تھا  جس نے ویکسین  سمیت  چینی طبی امدادی سامان  وصول کیا۔ دنیا بھر میں 200 سے زائد ممالک کو چینی ویکسین کی 600 ملین سے زیادہ خوراکیں پیش کی گئیں ہیں تاکہ عالمی سطح پر جان بچانے اور وبائی امراض سے لڑنے میں مدد ملے۔ چین کی جانب سے کو  ویڈ۔19 کے خلاف مشکل جدوجہد تاریخ  میں لکھنے کے قابل ہے  ۔ ہیلتھ ڈپلومیسی کے ذریعہ، چین ضرورت مندوں کا دوست ثابت ہوا ہے۔ قومی اور عالمی سطح پر مہلک وائرس کے خلاف لڑنے کے علاوہ چین عالمی ادارہ صحت سمیت عالمی سطح پر صحت کے نگہبانوں کے ساتھ شفاف طریقے سے تعاون کر رہا ہے۔ چینی حکام نے ڈبلیو ایچ او کے وفد کو ووہان میں وائرس کی ابتداء کی تحقیقات کے لئے مدعو کیا، جہاں وفد اور دیگر عہدیداروں  کا  چین کی کوآپریٹو ٹیموں اور کارکنوں کے ساتھ اسقبال کیا گیاتاکہ وہ وائرس کی ابتدا کو پیشہ ورانہ ، سائنسی ، ذمہ دار اور غیر جانبدارانہ انداز سے حاصل کریں۔ حقائق اور کام کی بنا پر جو پہلے مرحلے میں ہوچکا ہے، اس دوسرے مرحلے میں  اس کو  کو دہرایا نہیں جانا چاہئے۔ خاص طور پر ان نتائج سے متعلق ڈبلیو ایچ او چین کی مشترکہ رپورٹ کو حتمی شکل دینے کے بعد ایک واضح نتیجہ برآمد ہوا ہے۔ چین کی جانب سے  کووڈ 19 کے انسداد کے حوالے سےتمام دیانتدارانہ خدمات  کے باوجود  چین کو  اب بھی متعدد سازشوں  اور    شکوک و شبہات کا شکار بنایا جا رہا ہے۔

  • comments
  • give_like
  • collection
Edit
More Articles