En

ای-بس، پاک چین تعاون گرین مستقبل کے لیےایک ماڈل ہے

By Staff Reporter | Gwadar Pro Jul 24, 2021

اسلام آباد: الیکٹرک گاڑیاں بنانے والی دنیا کی معروف چینی کمپنی بی وائی ڈی  نے پاکستان میں مارکیٹ بنانے اور الیکٹرک گاڑیوں کی تیاری کے لئے پاکستان کے سیفائر گروپ کے ساتھ شراکت داری کی ہے۔گوادر پرو کی ایک رپورٹ کے مطابق پہلی الیکٹرک بس اکتوبر 2020 میں پاکستان کو بی وائی ڈی سے درآمد کی گئی تھی اور ای-بس نے اپنا آغاز کیا ہے اور رواں سال مارچ میں کراچی میں اس کا آغاز کردیا گیا۔سیفائر اس بس کو 36 کلومیٹر دو طرفہ موجودہ روٹ پر چلا رہی ہے۔ خیال ہے کہ کراچی میں ای وی بسوں کی تعداد 100 کردی جائے گی۔سیفائر انرجی پرائیوٹ کےپروجیکٹ منیجر (بزنس ڈویلپمنٹ)طلحہ طارق نے بتایا کہ الیکٹرک گاڑیاں گلوبل وارمنگ اور ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے متعارف کروائی گئیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہم نے ان کو متعارف کرایا ہے اور یہ مستقبل ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ہائیڈرو کاربن ایندھن سے الیکٹرک گاڑیوں کو نقل و حمل کے لئے تبدیل کرنے کا ایک طریقہ ہے۔چونکہ ای بس کے کام شروع کیے کئی مہینے گزر چکے ہیں، 35 مسافروں کی نشستوں پر مشتمل 12 میٹر لمبی بس کو مقامی مسافروں کی جانب سے سراہا گیا ہے۔ایک مسافر کے بقول بس میں اے سی ہے اور وہیل چیئر سے معذور یہاں آسانی سے بیٹھ سکتے ہیں۔ یہ انوکھی چیز ہے جو ہم نے دوسری بسوں میں نہیں دیکھی۔ایک مسافر مشتاق احمد نے بتایا چونکہ کراچی کی آب و ہوا بہت گرم ہے لہذا بس میں اے سی ہے۔ بس میں ماسک اور ہینڈ سینیٹائزر دستیاب ہیں، سروس اچھی ہے۔ ای بس ڈرائیور آفاق احمد نے بتایا کہ اس میں کوئی تھکاوٹ محسوس نہیں ہو رہی ہے۔ کسی بھی قسم کی آلودگی نہیں ہے۔ کوئی دھواں نہیں، کوئی ڈیزل، کوئی شور نہیں۔ یہ ایسی خاموش گاڑی ہے کہ ہم اپنا فرض پُرامن طریقے سے انجام دیتے ہیں۔سیفائر گروپ کے مطابق آپریشنل لاگت کراچی میں چلنے والی معمول کی بسوں کے نصف حصے سے کم ہوگی۔ اس بس میں 324 کلو واٹ فی گھنٹہ (کلو واٹ-گھنٹے) کی بہتر صلاحیت ہے اور ایک ہی چارج میں 250 کلومیٹر سفر کر سکتی ہے جو شہر کے باقاعدگی کی ٹریفک کے تحت پورے بوجھ کے ساتھ ہے۔  20 روپے فی کلو واٹ کی لاگت سے، چلانے کی لاگت 26 روپے فی کلومیٹر کے حساب سے آئے گی اور مکمل چارج میں پورے چھ راؤنڈ کرے گی۔جیسا کہ لاہور، کراچی، اسلام آباد، راولپنڈی میں نقل و حمل کا تنگ سلسلہ جاری ہے، جس طرح ڈیزل بسیں چل رہی ہیں اس پر دوبارہ جائزہ لیا جارہا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ شہر میں ای بس کا اضافہ ٹریفک جام کا بھی حل ہوسکتا ہے۔ای بس نے جو کچھ پاکستان لایا ہے وہ مقامی لوگوں کی بہتر زندگی سے زیادہ ہے۔ بحیثیت سیفائر گروپ کے سٹریٹجی اور  اور خصوصی منصوبوں کے ڈائریکٹر احمد جودیت بلال نے کہا بنیادی طور پر ہم جو کوشش کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ ہم حکمت عملی کے طور پر پاکستان میں ٹرانسپورٹ کے نظام کو الیکٹرک کرناچاہتے ہیں۔پاکستان میں تیل اور گیس کی سالانہ درآمد  80 فیصد کے لگ بھگ ہے۔ بی وائی ڈی ایشیا پیسیفک آٹو سیلز ڈویژن کے جنرل منیجر لیو شو لیانگ نے کہا کہ اگر پاکستان میں تمام 2 لاکھ 40 ہزار بسوں کو الیکٹرک میں تبدیل کردیا گیا تو اس سے کافی ایندھن کی بچت ہوگی اور درآمدات پر انحصار بڑی حد تک کم ہوجائے گا۔ 40 سے 50 فیصد ٹریفک کی آلودگی کے اخراج کو کم کیا جاسکتا ہے۔قابل تجدید توانائی کے حوالے سےلیو نے خاص طور پر شمسی توانائی میں صلاحیتوں کا تذکرہ کیا۔ پاکستان میں سالانہ اوسطا 3 ہزار گھنٹے سے زیادہ سورج کی روشنی حاصل ہوتی ہے، جبکہ بلوچستان میں روزانہ 8 سے 8.5 گھنٹے تک سورج کی روشنی پڑتی ہے، جو عالمی سطح پر آتی ہے۔لیو نے بجلی کے نیٹ ورک کو متوازن کرنے کے لئے ایک آلے کے طور پر ای بس کی کارکردگی کا بھی ذکر کیا۔ اب ای بس پوری چارجنگ پر جس میں لگ بھگ چار گھنٹے درکار ہیں 250 سے 300 کلو میٹر تک چل سکتی ہے۔چونکہ ملک میں بجلی کا استعمال دن کے وقت ذیادہ اور رات کو کم ہوتا ہے اس لیے رات کو چارج کرنے سے توازن برقرار رکھنے میں مدد مل سکتی ہے، اور جب کوئی ہنگامی صورتحال پیش آتی ہے تو اس دوران بجلی مل سکتی ہے۔انہوں نے کہا اس طرح ای وی نہ صرف آپ کے سفر  کومتاثر کُن بناتی ہے بلکہ طرز زندگی کو بھی تبدیل کرتا ہے، جو ملک کے توانائی کے جامع ڈھانچے کو ایک اچھا ذریعہ فراہم کرتا ہے۔ایک ہی طرح کی پیشکش کے بجائے، بی وائے ڈی کا مقصد قومی صنعتی ترقی کے لئے  ٹکنالوجی اور مصنوعات کی فراہمی کرنا ہے۔ الیکٹرک عوامی ذرائع نقل و حمل کے استعمال سے، ایک نیا ماحولیاتی سلسلہ تیار کیا جائے گا۔ہمارا اپنے اور دیگر مختلف روٹ  پر مزید بسیں شامل کرنے کا منصوبہ ہے۔ اسی طرح، ہم لاہور، پشاور، سیالکوٹ، ملتان اور دیگر کو بھی مدِنظر رکھیں گے۔

  • comments
  • give_like
  • collection
Edit
More Articles