قابل تجدید توانائی صنعتی پیداوار کو فروغ دے گی ،پاکستانی ماہرین
قابل تجدید توانائی بشمول ہوا، شمسی اور ہائیڈرو پاور پاکستان میں صنعتی ترقی کے لیے اعلیٰ معیار اور کم لاگت کا محرک فراہم کرتی ہے، پاکستان میں مینوفیکچرنگ تکنیک کو بہتر بنانا ضروری ہے ،ڈاکٹر حسن د اود بٹ
اسلام آباد (آئی این پی) اکستان کو تبدیلی کے دور سے گزرتے ہوئے مختلف چیلنجز کا سامنا ہے اور اسے مستحکم ترقی کے حصول کے لیے توانائی کی فراہمی اور لاگت کے مسائل کا فوری حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے ، پاور گرڈ کی اپ گریڈنگ اور قابل تجدید توانائی ٹیکنالوجی پر چین پاکستان تعاون پاکستان میں پائیدار ترقی کے لیے سبز حل پیش کر رہا ہے۔ ان خیالات کا اظہار سینئر ایڈوائزر، سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ (SDPI) ڈاکٹر حسن د اود بٹ نے گوادر پرو کو ایک حالیہ انٹرویو میں کیا۔ حال ہی میں منعقد ہونے والے ''قابل تجدید توانائی کے حصول کے لیے اہم اصلاحات کے آپشن اور چیلنجز پر ایس ڈی پی آئی گول میز مباحثے کے دوران، انہوں نے کہا کہ قابل تجدید توانائی بشمول ہوا، شمسی اور ہائیڈرو پاور پاکستان میں صنعتی ترقی کے لیے اعلیٰ معیار اور کم لاگت کا محرک فراہم کرتی ہے۔ تاہم، نئے توانائی کے اقدامات اور منصوبے پیچیدہ، خطرناک اور وقت طلب ہیں۔گوادر پرو کے مطابق انہوں نے مزید کہا کہ مستقبل میں روزگار کے مواقع اور صنعتوں کو بجلی تک رسائی کے قابل بنانے کے لیے صنعتی ترقی ناگزیر ہے، اور پاور وہیلنگ جیسے اقدامات ناگزیر ہیں۔ ہیڈ وائنڈز سے نمٹنے کے لیے، مقامی ثقافتوں اور ماحول کے مطابق ترقیاتی نظام متعارف کراتے ہوئے ایک مربوط اور ہم آہنگی کا طریقہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ گوادر پرو کے مطابق ہیڈ آف سینٹر فار پرائیویٹ سیکٹر انگیجمنٹ ای ڈی پی آئی احد نذیر نے کہا کہ پاکستان میں طویل عرصے سے بجلی کی تقسیم اور ترسیل کے نقصانات کو کم کرنے پر بہت کم توجہ دی گئی ہے۔ چین کے پاس دنیا کے بہترین انفراسٹرکچر سسٹمز میں سے ایک ہے اور اس نے مٹیاریـلاہور ایچ وی ڈی سی منصوبے پر پاکستان کے ساتھ شراکت داری کی ہے۔ طویل مدت میں پاکستان کو ٹیکنالوجی صارف بننے سے ٹیکنالوجی ڈویلپر کی طرف بڑھنا چاہیے۔ گوادر پرو کے مطابق پاکستان میں مینوفیکچرنگ تکنیک کو بہتر بنانا ضروری ہے۔ اب تک ہمارے پاس تنصیب کی صلاحیت ہے اور ونڈ توانائی کے حوالے سے بنیادی توجہ اب مقامی طور پر آلات کی تیاری پر مرکوز ہونی چاہیے،'' احد نے مزید کہا مقامی طور پر ٹاورز اور گوداموں کی تعمیر بھی درآمدات اور لاجسٹکس کے اخراجات کو کم کرنے کے لیے ایک اچھی مداخلت ہے۔ گوادر پرو کے مطابق نظرثانی شدہ آر ای پالیسی کے تحت حکومت پاکستان کا ہائیڈرو سمیت 2030 تک اپنی توانائی کا 60 فیصد قابل تجدید ذرائع سے حاصل کرنے کا ہدف ہے، جس سے پاکستان کو درآمد شدہ ایندھن کی مصنوعات سے چھٹکارا مل جائے گا۔ احد نے وضاحت کی کہ ہمیں توانائی ذخیرہ کرنے کی ٹیکنالوجی اور ہائیڈروجن ایندھن اور ایتھنول کو اپنانے کی ضرورت ہے یہ وہ چیزیں ہیں جو جیواشم ایندھن سے کم نقصان دہ ہیں اور پھر بھی یہ قابل تجدید توانائی کے ذرائع تک ہمارے سفر کو آسان بنا سکتی ہیں۔ گوادر پرو کے مطابق وزیر اعظم نے پہلے ہی اپریل 2023 تک سرکاری عمارتوں کو سولرائز کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا ہے اور اس کے مطابق مراعات متعارف کرائی ہیں۔ چینی کمپنیوں کو پاکستان کے قابل تجدید توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کے لیے راغب کرنے کے لیے احد نے انہیں پاکستان میں بڑے مقامی گروپوں کے ساتھ مشترکہ منصوبے قائم کرنے کی تجویز دی۔ گوادر پرو کے مطابق ریسرچ کنسلٹنٹ ایس ڈی پی آئی ڈاکٹر خالد وحید نے انکشاف کیا کہ پاکستان 3 بلین ڈالر مالیت کا ٹرانسپورٹیشن فیول درآمد کرتا ہے جو کہ بحرانی صورتحال کے دوران پاکستان کے لیے ایک بہت بڑی رقم ہے۔