پاکستان اور چین کے درمیان تعاون سے پاکستان کی آم کی پیداوار میں اضافہ ہوگا
ژیان یانگ(چائنا اکنامک نیٹ)پاکستانی آموں کا موسم آ رہا ہے، اس قسم کا پھل بھرپور ذائقہ، زیادہ مٹھاس اور باریک ریشے کے لیے مشہور ہے جسے عالمی منڈی میں کافی عرصے سے پسند کیا گیا ہے۔ تاہم مقامی کسان مختلف عوامل کی وجہ سے پیداوار میں کمی سے پریشان ہیں۔ وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ کے ایک اہلکار کے مطابق پاکستان میں گزشتہ سال تقریباً 1.7 سے 1.8 ملین ٹن آم کی پیداوار ہوئی تھی لیکن اس سال انہوں نے کہا کہ ملک میں آم کی پیداوار میں 30 فیصد کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ کچھ پیشہ وروں نے اس سے بھی کم پیشین گوئیاں کی ہیں۔ آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجی ٹیبل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن (پی ایف وی اے) کے سر براہ وحید احمد کے مطابق اس سال آم کی پیداوار 0.9 ملین ٹن تک محدود ہو سکتی ہے جو گزشتہ سال 1.8 ملین ٹن تھی۔
تو اصل وجہ کیا ہے؟ پاکستان ایگریکلچر ریسرچ کونسل (پی اے آر سی) کے چیئرمین ڈاکٹر غلام علی نے اشارہ دیا کہ موسم گرما کی جلد آمد اور غیر معمولی زیادہ درجہ حرارت نے فصل کو پھل آنے کے عمل کے لیے مطلوبہ وقت نہیں ملنے دیا۔ مارچ کے وسط میں اوسط درجہ حرارت 37 سے 42 ڈگری کے درمیان دیکھا گیا۔ اس کے برعکس پچھلے سیزن کے دوران اوسط درجہ حرارت 34 ڈگری کے آس پاس تھا۔ اس کے علاوہ، روپے کی قدر میں کمی، مزدوری کے بڑھتے ہوئے اخراجات اور بجلی اور گیس کے اعلیٰ ٹیرف نے آم کی پروسیسنگ کی لاگت کو نمایاں طور پر کئی گنا بڑھا دیا ہے۔
اس کو دیکھتے ہوئے برآمد کنندگان کو رواں سیزن کے لیے برآمدی ہدف کو 25,000 ٹن کم کرکے 125,000 ٹن کرنے پر مجبور کیا گیا ہے۔
پاکستانی آموں کی حالت زار کو دیکھتے ہوئے چینی اور پاکستانی ماہرین اس صورتحال کو تبدیل کرنے کے لیے تعاون کے مواقع تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ شانزی صوبے میں یانگ لنگ ایگریکلچرل ہائی ٹیک انڈسٹریز ڈیموسٹریشن زون جو کہ شمال مغربی چین میں بہت کم پانی کے ساتھ معتدل علاقے میں واقع ہے اس میں آم کی ایک قسم گر م او نیم مر طوب پھل کے طور پر لگاتار تین سالوں سے کاشت کیے جا رہے ہیں۔
یانگ لنگ چھنگ پیتا گارڈن ڈریگن فروٹ ڈیموسٹریشن بیس کے جنرل منیجر وانگ یان نے چائنا اکنامک نیٹ کو بتایا کہ ہماری تین بہترین اقسام میں سے چھوٹے پھل والی ایک قسم کی پیداوار تقریباً 1.3 ٹن فی ایم یو (0.067 ہیکٹر) ہے، اور بڑے پھل والی دیگر دو اقسام کی پیداوار 1.5 سے 2 ٹن فی ایم یو کے درمیان ہے۔ اس کے علاوہ ان سب میں بیماری اور سردی کے خلاف شدید مزاحمت ہے۔
'' وانگ یان نے سی ای این کو بتایا کہ ہماری جدید سہولت والی زراعت کے ساتھ مجھے یقین ہے کہ اگر تعاون کا موقع ملتا ہے تو ہم پاکستان میں شدید موسم کی وجہ سے آم کی پیداوار میں کمی کو منظم طریقے سے بہتر کر سکیں گے۔ انہوں نے کہا ایک بار پانی اور کھاد سے مربوط گرین ہاؤس بن جانے کے بعد سروس لائف عام طور پر 15 سال سے زیادہ ہوتی ہے، جس میں اعلیٰ اقتصادی فوائد ہوتے ہیں۔ گلوبل وارمنگ کے ساتھ انتہائی موسم مستقبل میں زیادہ کثرت سے ہونے کا امکان ہے، ایک طویل مدتی مستحکم ترقی کا ماحول بنیادی طور پر قدرتی آفات سے ہونے والے نقصان کو کم کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ زمین کے نامیاتی مادے کو بڑھانے کے لیے نامیاتی کھادوں کا استعمال بھی اولین ترجیح ہے کیونکہ شدید موسم بھی اوپر کی مٹی کو شدید نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اگر ہم آہنی بھائی کے ساتھ مل کر کام کر سکتے ہیں تو ہم گرین ہاؤس اور مٹی سے شروعات کریں گے اور دو جہتی نقطہ نظر حاصل کریں گے۔ مربوط گرین ہاؤس کی نسبتاً زیادہ لاگت کو مدنظر رکھتے ہوئے سٹیل کے تار اور پلاسٹک فلم کے ساتھ ایک سادہ رینی شیڈ بنانا مقامی کسانوں کے لیے ایک اچھا انتخاب ہو سکتا ہے۔ جب موسم ٹھیک ہو تو شیڈکو ہٹایا جا سکتا ہے، اور شدید موسم جیسے طوفان اور اولے پڑنے کی صورت میں وہ پلاسٹک کی فلم سے بنی ''چھتری'' کو کھول سکتے ہیں۔ یہ کم لاگت کا طریقہ درختوں کی مؤثر طریقے سے حفاظت کر سکتا ہے۔
پاکستان میں کھادوں اور کیڑے مار ادویات کے غلط استعمال کے حوالے سے وانگ یان نے بھی اپنی رائے پیش کی۔ انہوں نے کہا درحقیقت، کیمیائی کھادوں اور کیڑے مار ادویات کے وسیع استعمال سے پھل جلد خراب ہو سکتے ہیں۔ اس لیے ہمیں کیمیائی کھادوں کے استعمال کو کم کرنا چاہیے تاکہ نامیاتی کاشتکاری کے طریقے جیسے کہ نامیاتی کھاد اور بھوسے کو کھیت میں واپس فروغ دینے کے لائق ہے، جس سے مقامی کھادوں کی زیادہ قیمت اور قلت کا مؤثر طریقے سے مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ ہم پاکستانی دوستوں کے ساتھ اپنا تجربہ شیئر کرنے کے لیے تیار ہیں۔
پاکستانی کسانوں کو باغات کے انتظام کی جدید تکنیکوں کی اشد ضرورت ہے۔ منگو کے کاشتکار محمد رفیع نے کہا کہ آم کی پیداوار کے لیے جدید تکنیک متعارف کرانے کی اشد ضرورت ہے جس سے پانچ سالوں میں فی ایکڑ پیداوار دوگنی ہو سکتی ہے۔ اگر حکومت مدد فراہم کر سکتی ہے تو باغبانی کے جدید انتظام پر توجہ دے کر کاشتکار فی ہیکٹر اوسط پیداوار 12 ٹن سے بڑھا کر 22 سے 25 ٹن کر سکتا ہے۔