En

چین کی مدد سے گوادر میں 1000 ایکڑ رقبے پر کیلا، مورنگا، سیسبانیا اور ایلو ویرا لگایاجائے گا

By Staff Reporter | Gwadar Pro Oct 29, 2021

 گوادر: پاکستان  ''گرین گوادر'' اور مقامی زراعت کو فروغ دینے کیلئے  چین کی مدد سے گوادر   کے بڑے  رقبے   پر  مناسب پھلوں اور پودوں کی کاشت  کا منصوبہ بنا رہا ہے۔  اس بات کا انکشاف 25 سے 27 اکتوبر تک گوادر اور چین کے دو شہروں میں ایک ساتھ منعقد ہونے والی پہلی ''چائنا پاکستان ٹراپیکل ایرڈ نان ووڈ فاریسٹ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی'' کانفرنس میں کیا گیا۔ شرکاء کو بتایا گیا کہ گوادر کے کئی ایکڑ رقبے پر کیلا، مورنگا، سیسبانیا اور ایلو ویرا لگائے جائیں گے تاکہ نہ صرف مقامی معیشت کو سہارا دیا جا سکے بلکہ گرین گوادر کو بھی فروغ دیا جا سکے۔ کانفرنس کا مقصد چین اور پاکستان کے نان ووڈ فاریسٹ /اقتصادی جنگلات کے میدان میں کامیابیوں اور تحقیقی پیشرفت کو ظاہر کرنا ہے اور دونوں ممالک کے درمیان ماہرین کے تبادلے اور تعاون کو بھی فروغ دینا ہے۔ اس موقع پر سیکرٹری   بلوچستان فاریسٹری اینڈ وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ دوستین جمالدینی نے کہا کہ صرف ان پودوں کے بیج بوئے جائیں گے جو گوادر میں کاشت کے لیے موزوں ہوں کیونکہ  ٹراپیکل  علاقوں میں بہت سے بیج ناکارہ ہو چکے ہیں۔ توجہ ان پودوں پر ہے جو مقامی لوگوں کے لیے اقتصادی طور پر اچھے ہیں یا چین کے لیے تجارتی طور پر فائدہ مند ہیں۔  شرکاء  کو بتایا گیا کہ یہ بیج آئندہ سال تقریباً 1000 ایکڑ رقبے پر لگائے جائیں گے تاہم ابتدائی طور پر تقریباً 5 ایکڑ پر سیسبانیہ کے پودے لگائے جائیں گے۔ اسی طرح آزمائشی بنیادوں پر کیلے کے 300 درخت، مورنگا کے 1000 درخت اور ایلو ویرا کے 500 پودے لگائے جائیں گے۔ دوستین جمالدینی نے تقریب کے انعقاد پر چائنا سوسائٹی آف فاریسٹری کا شکریہ ادا کیا  اور کہا کہ   یہ تقریب بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو ( پی آر آئی ) کے لیے فائدہ مند ثابت ہو گی ۔ انہوں نے مزید کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان میں درجہ حرارت بڑھ رہا ہے اور زیر زمین پانی تیزی سے خشک ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ تشویشناک ہے اور ہمیں ماحولیات پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ماحولیاتی تحفظ ہماری ترجیح ہے اور ہمیں یقین ہے کہ یہ تقریب گرین بیلٹ پر بہتر آئیڈیاز اور پیداواری صلاحیت لائے گی۔ ہم نے ماحول کے تحفظ کے لیے پہلے ہی بندرگاہ اور فری زون والے علاقوں میں کافی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک بی آر آئی کا فلیگ شپ منصوبہ ہے۔ گوادر بندرگاہ ایک بار ترک کردی گئی تھی اور یہ پہلے ہی سرمایہ کاروں کے لیے خوابوں کی سرزمین ہے۔ تقریباً 46 سرمایہ کار گوادر بندرگاہ کے علاقے میں کام کرنے کے لیے پہلے ہی رجسٹرڈ ہو چکے ہیں۔ اہلکار نے کہا کہ ٹشو کلچر لیب اور پودوں کی کاشت پہلے سے  ہی فعال ہے۔ سنٹرل ساؤتھ یونیورسٹی آف فاریسٹری اینڈ ٹیکنالوجی، سی او پی ایچ سی، اور یولن ہولڈنگ نے مشترکہ طور پر ایک پلانٹ ٹشو کلچر لیبارٹری اور ایک گرین ہاؤس قائم کیا ہے تاکہ اس بندرگاہ میں  نان ووڈ فاریسٹ کی تحقیق، افزائش نسل اور پودے لگائے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ مورنگا   اور کیلے کے پودے  اس ماحول میں اچھی طرح  نشوونما کر رہے ہیں اور وہ مقامی لوگوں کو  پھلبھی  دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ اقدام ان مقامی لوگوں کی مدد کر رہا ہے جن کی تعلیم تک رسائی نہیں ہے۔ اس کانفرنس کی مشترکہ میزبانی چائنیز سوسائٹی آف فاریسٹری، سینٹرل ساؤتھ یونیورسٹی آف فاریسٹری اینڈ ٹیکنالوجی، چائنا اوورسیز پورٹس ہولڈنگ کمپنی اور ٹیکنومین کائنیٹکس نے  کی ہے۔ چین میں کانفرنس کا مقام سینٹرل ساؤتھ یونیورسٹی آف فاریسٹری ٹیکنالوجی کی چانگشا برانچ   جبکہ گوادر میں   پاکستان گوادر فری زون بزنس سینٹر  تھا ہے۔ پہلے تبادلے کا موضوع تحقیق کی موجودہ حیثیت اور مستقبل کی ترقی کی سمت، زیزیفس اور فینکس سے تعلق رکھنے والے پودوں کے جراثیمی وسائل کا استعمال تھا۔ یہ کانفرنس دونوں ممالک کے لیے سائنس، ٹیکنالوجی، ماحولیات اور معیشت کی مضبوطی میں کلیدی کردار ادا کرے گی۔ اس موقع پر سی او پی ایچ سی کے چیئرمینچنگ باؤچونگ نے کہا کہ صرف ''گرین گوادر'' بندرگاہ کو بہتر طریقے سے چلانے کے قابل بنائے گا اور مقامی لوگوں کی آنے والی نسلوں کو فائدہ پہنچا سکے گا۔ کانفرنس میں انڈس یونیورسٹی کراچی، کراچی یونیورسٹی اور فیصل آباد نے بھی شرکت کی۔

  • comments
  • give_like
  • collection
Edit
More Articles