En

پاکستانی سمندری غذا برآمد کنندگان کی  چین کو برآمد کرنے کی خاصی  صلاحیت  موجود ہے

By Staff Reporter | Gwadar Pro Jul 13, 2021


اسلام آباد:سپر اسٹار انٹرپرائز کے سی ای او سہیل فردوس نے  کہا ہے کہ برآمدات میں چین ہماری ریڑھ کی ہڈی ہے، سمندری غذا کی  برآمدات میں  چین ہماری فروخت کا لازمی پہلو ہے۔ انہوں نے گوادر پرو کو بتایا  کہ بحیرہ عرب کے شمالی حصے میں واقع  پاکستان میں ماہی گیری کی بھرپور صلاحیت موجود ہے اور اس کی سمندری غذا کی برآمد میں  مستحکم اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔پاکستان بیورو آ ف شماریات (پی بی ایس) کے   تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق جولائی تا مئی (2020-21 ) کے دوران سمندری غذا کی برآمدات  383.088 ملین ڈالر ریکارڈ کی گئیں جو  جولائی تا مئی  2019-20 میں 373.382  ملین ڈالرتھیں۔   چین کو برآمد کرنے کا ایک بہت بڑا تناسب ہے۔ انٹرنیشنل ٹریڈ سینٹر (آئی ٹی سی) کے اعدادوشمار کے مطابق  پاکستان کی  چین کو مچھلی اور آبی مصنوعات کی برآمدات 2019 میں پاکستان کی ان  مصنوعات کی کل برآمدات کا 29 فی صد تھیں ۔سہیل فردوس نے کہا7 سے 8 مختلف اقسام کی مچھلی زیادہ تر چین میں کھائی جاتی ہے۔ چین کے تیانجن شہر  میں  ہماری سول  مچھلی بہت مشہور ہے۔ اس شہر میں پاکستان کی 70  فی صد سول  مچھلی کھائی جاتی ہے۔ یہاں ربن فش، کٹل فش، سکویڈ، آکٹپس اور دیگر اشیا بھی ہیں جنہیں چینی لوگ بہت پسند کرتے ہیں ۔ اس بہت بڑی مارکیٹ کو  ہدف  بناتے ہوئے  سہیل فردوس نے کہا کہ مارکیٹنگ کے نقطہ نظر سے برآمد کے لئے یہ بہت آسان ہے کیونکہ ہمیں معیار کو ثابت کرنے کی ضرورت ہے۔ یورپ اور امریکہ کے معاملے میں ہمیں بہت سارے سرٹیفیکیشن اور آڈٹ کی ضرورت ہے  اور ہمیں پاس کرانے سے پہلے  ایک مشکل مرحلے سے گزرنا ہوگا۔   2006 میں چین پاکستان آزاد تجارتی معاہدے پر دستخط کیے گئے پہلے مرحلے کے تحت پاکستان نے چین کو 724 مصنوعات کی برآمد پر صفر ڈیوٹی سے  لطف اٹھایا ۔ دوسرے معاہدے کے  2019 میں عمل درآمد ہونے کے بعد پاکستان کو صفر  ڈیوٹی  کے ساتھ ایک ہزار سے زائد مصنوعات چین کو برآمد کرنے کی اجازت دی گئی ہے، جس سے ماہی گیری کے شعبے سمیت تجارت کو بڑی حد تک سہولت فراہم ہوتی ہے۔ہائی 5 انٹرنیشنل فوڈ پاکستان کے سی ای او محمد رفیق اعوان نے کہا جو چین کو سمندری غذا، جیسے ربن فش، سکویڈ، کٹل فش، اور آکٹپس برآمد کرتا ہے  نے کہا پاکستان سے چین کو سب سے زیادہ برآمد ہونے والی مچھلیوں میں ربن مچھلی، سکویڈ، میکریل اور  سول  مچھلی  ہے ۔ چین ہم سے بہت ساری مصنوعات خرید رہا ہے ۔ ہم چین میں ربن مچھلی برآمد کرتے ہیں، یہ چین کے مقامی استعمال کے لئے ہے، اسی طرح  ہماری سکویڈ، کٹل فش  اور بہت سی دوسری مچھلیاں وہاں مزید ویلیو ایڈڈ مصنوعات میں   جاتی ہیں اور وہ یورپی ممالک کو برآمد کی جاتی ہیں۔ ۔ محمد رفیق اعوان نے کہا کہ اس طرح  برآمدی کاروبار میں  بہتری  درکار ہے،  پاکستانی ماہی گیری کی صنعت کو قدر میں اضافے کی طرف راغب ہونا چاہئے۔''برآمد میں، ویلیو ایڈڈ مصنوعات کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ جب آپ کی مصنوعات کی مقدار کم ہے اور آپ اسے ویلیو ایڈڈ پروڈکٹ کے طور پر بیچتے ہیں تو اس سے آپ کو آمدنی میں زیادہ فائدہ ہوگا۔ مقامی لوگوں کے لئے برآمدات اور روزگار کے مواقع بڑھانے کا یہی طریقہ ہے ۔ محمد رفیق اعوان نے مزید کہا کہ جدید ترین  ٹیکنالوجی کو   استعمال کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ صرف ایک فیکٹری ہے جس نے نائٹروجن پر مبنی تیز جما دینے والی برف پر کام کرنا شروع کیا ہے۔ اس ٹیکنالوجی سے معیار کو برقرار رکھنے میں مدد ملتی ہے۔ مصنوعات تیزی سے جم جاتی  ہیں ۔   اس کے علاوہ، ہمیں جدید ترین خودکار مشینری اپنانی چاہئے۔ ہم اب بھی پرانے طریقے استعمال کر رہے ہیں۔ پرانے طریقے زیادہ بجلی استعمال کرتے ہیں اور اخراجات میں اضافہ ہوتا ہے۔ ہم ابھی بھی جدید ترین ٹیکنالوجی کے استعمال میں بہت پیچھے ہیں جیسا کہ یورپ، چین اور مشرق وسطی میں استعمال ہو تی  ہے۔ چین کے ساتھ ممکنہ تعاون کے بارے میں بات کرتے ہوئے سہیل فردوس نے کہا کہ چونکہ چینی پاکستان میں سرمایہ کاری میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں  اور پاکستان چین کو ایک بڑی  مقدار میں مچھلی برآمد کرتا ہے جو وہاں دوبارہ  پراسس کی  جاتی  ہے اور پھر دنیا میں برآمد  کی جاتی ہے۔  چینی تاجر  یہ  پراسس  پاکستان میں کر سکتے   ہیں  کیونکہ یہاں کی مزدوری سستی ہے، خام مال تازہ ہے اور پاکستان سے چین تک آمدورفت کی اضافی لاگت  ختم ہو جائے گی   ۔

  • comments
  • give_like
  • collection
Edit
More Articles