En

چینی اسکالر   70 سالہ پاک چین عوام سے عوام کے تبادلے کے معترف

By Staff Reporter | Gwadar Pro Jun 18, 2021

بیجنگ  : 70 سال قبل سفارتی تعلقات کے قیام کے بعد سے  چین اور پاکستان نے  ہمیشہ ایک دوسرے کو سمجھا، احترام کیا ، اعتماد اور ایک دوسرے کی مدد کرتے رہے ہیں ، اس سے قطع نظر کہ دنیا اور  خطے کی  سیاست کس طرح ترقی پذیر ہوئی ہے  ۔  یہ  بات پیکنگ یونیورسٹی کے سینٹر فار پاکستان اسٹڈیز کے ڈائریکٹر پروفیسر تانگ مینگ شنگ  چائنا اکنامک نیٹ (سی ای این) کو انٹرویو میں کہی ۔ انہوں نے کہا  ہمارے دونوں ممالک کے مابین دوستی جو ہمیشہ سے مضبوط اور مستحکم رہی ہے ، ریاست سے ریاست کے تعلقات  کے طور پر مثالی  ہے۔ پچھلے 70 سالوں میں چین پاکستان دوستی ہمیشہ  قدم بہ قدم  پہلے سے  زیا دہ  مضبوط ہوتی رہی  اور  یہی ہی وجہ  ہے کہ  ہم اکثر کہتے ہیں  چین پاکستان دوستی نا ٹوٹنے  والی ہے۔ 1974 میں  پیکنگ یونیورسٹی  مشرقی زبانوں اور ثقافتوں کے شعبہ ، اردو میجر سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد  پروفیسر تانگ مینگ شنگ نے  بطور مترجم ، پاکستان میں "پاک چین دوستی شاہراہ" کے نام سے شاہراہ قراقرم کی تعمیر میں بھی حصہ لیا۔ جیسے ہی تانگ کو  واپس بلا یا گیا تو سٹرک تعمیر کرنے والے  ٹرکوں میں سوار ہو کر  چین کے صوبہ سنکیانگ سے روانہ ہوگئے۔ گڑھوں والی  سڑک پر ان کا سفر انتہائی مشکل تھا۔ لیکن انہوں نے لوگوں کو جو آ سانی فراہم کی  اس کی وجہ سے  ان کی آ مد پر لمبے عرصے سے  منتظر   مقامی لوگوں نے ان  کا  پرتپاک استقبال کیا۔ سخت حالات زندگی کے باوجود  مقامی لوگوں نے ہمیشہ ان کی دیکھ بھال کی۔ انہی دنوں میں  وہ ہنزہ اور گلگت کے نواحی علاقوں میں رہتے تھے ، جہاں سڑکیں پہاڑوں کے ساتھ تعمیر کی گئیں تھی جن کے قریب  چھوٹے چھوٹے کھیت تھے ۔  تعمیراتی ٹیم کی خوراک کی سپلائی  چین سے لائی جاتی تھی  تاکہ مقامی لوگوں کی روزمرہ کی زندگی میں رکاوٹ   ڈالی جائے نہ ہی  انکے مفادات کو نقصان پہنچایا جائے  ۔ تانگ نے یاد د کیا  کہ شاہراہ پر آڑو اور خوبانی بہت زیادہ تھی ، اس طرح مقامی لوگ یہ پھل ہمارے کارکنوں کو دیتے تھے۔ کچھ تو اپنے گھر والوں سے انڈے بھی ہمارے پاس لاتے تھے۔ ہمیں جو بھی مشکلات پیش آئیں ، وہاں موجود لوگ ہماری مدد کرنے کے لئے ہمیشہ تیار رہتے  ۔  سخت زندگی گزارنے کے علاوہ   معماروں کو بھی نہ ختم ہونے والے خطرات کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک دن اسلام آباد سے واپسی پر تانگ اور اس کے ساتھیوں کو ایک تودے  کے گرنے کا سامنا کرنا پڑا۔ انہیں گرتے ہوئے پتھر کے ٹکڑوں پر قدم رکھتے ہوئے قدم بہ قدم آگے بڑھنا پڑا۔ انتہائی خطرناک جگہ پر  انہوں نے حفاظت کے لئے ایک دوسرے کو رسی سے باندھ دیا۔ ایک لاپرواہی   گر کر ہلاک ہونے  کا باعث بن سکتی تھی ۔  انہوں نے کہا میں نے صرف چند خطرات کا سامنا کیا  لیکن ہمارے  بلڈرز  ہر وقت خطرات سے نبردآزما  ہوئے ا۔ چونکہ 1970 کی دہائی میں مکینیکیشن کی سطح  بہت کم تھی ، اس کے باوجود ہم نے بڑے پیمانے پر پتھروں اور بجر ی  کو لے جانے کے لئے دستی گاڑیوں پر بہت زیادہ انحصار کیا۔ انہوں نے بہت کام  سخت کیا ۔تانگ نے کہا تاہم یہ دیکھنے کے لئے حوصلہ افزاء   ہے کہ چین اور پاکستان دونوں کے شاہراہ تعمیر کرنے والوں نے سردیوں  میں برف جمنے اور گرمی کے موسم میں خون اور پسینہ  بہا کر اس شاہراہ کو قراقرم کی  چٹاانوں کے درمیان تعمیر کیا ۔ تانگ نے کہا کہ اس شاہراہ کا قیام نہ صرف چین اور پاکستان کے مابین دوستی کی نمائندگی ہے بلکہ شاہراہ کی  تعمیر عالمی تاریخ کا ایک معجزہ بھی ہے محنت کا صلہ ضرور ملتا ہے ۔ چار سال بعد تانگ 1978 میں چین لوٹا۔ جب وہ 40 سال بعد سن 2016 میں اس معروف شاہراہ پر واپس گیا تو نہ صرف اس کے پرانے دوستوں بلکہ کچھ نئے جاننے والوں نے بھی انہیں بتایا کہ اس شاہراہ نے ان کی زندگی کو کتنا  بدل دیا۔ انہوں نے کہا  میں اسلام آباد کے سرینا ہوٹل کے کاؤنٹر پر ایک ویٹر کی طرف بھا گا۔ کچھ الفاظ کے بعد  مجھے معلوم ہوا کہ وہ چترال سے ہے ، جہاں سے ہم شاہراہ تعمیر کرنے کے دوران  گزرتے  تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ اگر یہ بات نہ ہوتی تو شاہراہ قراقرم کے راستے  پہاڑوں سے نکل کر دنیا کو دیکھنے کا موقع  نہ ملتا ۔ تانگ نے کہا    2017 میں    میری  پاکستان الیکٹرک پاور کمپنی کی ایک خاتون سے ملاقات ہوئی ۔ اس کا آبائی شہر ایک بہت دور دراز علاقہ ہنزہ کے شمال کی طرف  تھا ۔ شاہراہ قراقرم کی وجہ سے وہ گلگت میں اسکول جاسکتی تھی ، جو گھر سے ستر میل سے زیادہ  دور  تھا ۔ بعد میں انہوں نے بیرون ملک  یو کے  میں تعلیم حاصل کی اور  انجینئر بن کر پاکستان واپس  لوٹیں ۔ دل  کو چھونے والی کہانیاں ہمیشہ ایک جیسی ہوتی ہیں۔

  • comments
  • give_like
  • collection
Edit
More Articles