En

چینی شہر لان چو میں پاکستانی آموں کی آمد

By Staff Reporter | China Economic Net Jun 12, 2021

ظفر حسین

لان چو ، 12 جون (چائنا اکنامک نیٹ) - چین کے شمال مغربی صوبہ گان سو کا دارالحکومت لان چو جو  قدیم سلک روڈ کا  ایک اہم مقام تھا اور جدید بیلٹ اینڈ روڈ اینیشی ایٹو میں نمایاں حیثیت رکھتا ہے  نے چینی تاریخ میں پہلی بار پاکستانی آموں کی براہ راست مکمل کھیپ موصول کی ہے اور شہر  کی ہوا پاکستانی آموں کی خوشبو سے مہک اٹھی ہے۔

پاکستانی تازہ سندھڑی  آموں کی 18 ٹن  کی یہ کھیپ لاہور سے لان چو  شہر کل رات گیارہ بجے پہنچی ۔ پاکستان میں آموں کی دو سو پچاس سے  زائد اقسام پائی جاتی ہیں۔ ان میں سندھڑی، انور رٹول ، چونسہ اور  لنگڑا اپنے ذائقہ اور خوشبو اورمٹھاس کی وجہ سے زیادہ مشہور ہیں۔

 

سندھڑی  آم بنیادی طور پر حیدرآباد ، رحیم یار خان اور سندھ کے دوسرے  علاقوں میں پائے جاتے ہیں اسی مناسب سے  اس کا نام سندھڑی پڑا۔ واضح رہے کہ پاکستان میں پھلوں کے بادشاہ کے نام سے مشہور پاکستانی" آم" اپنے ذائقے، خوشبو، مٹھاس اور دیگر خوبیوں کی بنا پر پوری دنیا میں مشہور ہیں۔

بیجنگ میں پاکستانی سفارتخانے کے کمرشل کونسلر بدر الز زمان نے چائنہ اکنامک نیٹ (سی ای این) سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک بہت تاریخی دن ہے کیونکہ چین میں پاکستانی آم کی زبردست مانگ تھی اور لان چو شہر سے اس خواب کو حقیقت میں بدل دیا۔ انہوں نے لان چو کی  مقامی حکومت ، چائنا اکنامک نیٹ ، منتظمین ، اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کو  اس کامیابی پر مبارکباد دی اور ان کا شکریہ ادا کیا ۔

افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بدر نے کہا کہ یہ پہلا موقع ہے جب پاکستان سے آم منتقل کرنے کے لئے مکمل چارٹرڈ طیارے کی خدمات حاصل کی گئیں۔اس سے پہلے پاکستانی آم مسافربرادر جہازوں کے ذریعے چین لائے جاتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ وہ جب سے چین میں تعینات ہوئے تب سے ان کی خواہش تھی کہ پاکستانی آموں کو بڑی تعداد میں ایک مکمل چارٹرڈ طیارے کے ذریعے چین لایا جائے  اور آخر کار آج وہ دن آگیا ۔

بدر کا کہنا تھا کہ  پاکستانی آم چین کے دوسرے حصوں میں بھی بہت مشہور ہیں اور اس کا ایک تاریخی پس منظر ہے۔ چین کے دوسرے صوبوں میں آم کی برآمد کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وقت  آم صرف ایئر کارگو کے ذریعے ہی لے جایا جاسکتا ہے جو ہمیشہ مہنگا راستہ سمجھا جاتا ہے لیکن چینی لان مئی ایئر لائن نے اس کھیپ کو ممکن بنانے میں مدد فراہم کی ہے۔جب کہ اب کچھ دیگر ایئر لائنز نے بھی آم کی نقل و حمل میں دلچسپی ظاہر کی ہے اور یہ نقل و حمل کی لاگت کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔

کمرشل کونسلر نے کہا کہ پاکستان زمینی راستے سے آم کی آمدورفت کی کوشش کر رہا ہے اور اگر ہم اسے خنجراب بارڈر سے خصوصی کنٹینر میں منتقل کرنے میں کامیاب ہوگئے تو یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہوگی۔جبکہ تیسرا طریقہ سمندر کے ذریعے بھیجنے کا ہے ، لیکن اس طریقہ کار کے لئے پچھلی کوششیں کامیاب نہیں ہوسکیں کیونکہ پاکستانی آم بہت میٹھے ہیں اور وہ زیادہ دنوں تک اپنی اصلی حالت برقرار نہیں رکھ سکتے ہیں۔

لاگت کم کرنے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اگر ہمیں زیادہ تعداد میں آڑدر موصول ہوں یا تین چار  درآمد کنندگان  مل کر آم ، کارگو ایئر لائنز  کے ذریعے درآمد کرے تو لاگت کو کم کیا جاسکتا ہے۔ جب کہ اس مقصد کے لئے دونوں ممالک کی حکومتیں بھی اپنی کوششیں کر رہی ہیں۔

 

اگلے ماہ بیجنگ میں پاکستانی سفارت خانے میں منعقد ہونے والے آموں کے فیسٹیول کے بارے میں بات کرتے ہوئے  ، مسٹر بدر نے بتایا کہ انہیں اس موقع تقریب کے بارے میں زبردست ردعمل ملا ہے اور سفارتخانے میں بہت سی کمپنیوں کے  اندراج کے لئے بہت سی درخواستیں موصول ہورہی  ہیں لیکن اس سال کووڈ کی وجہ سے اس پروگرام میں پانچ سے چھ سو افراد کی شرکت متوقع ہے جبکہ باقی لوگ آن لائن شرکت کرے گے۔

لان چو کو آم برآمد کرنے والے ایکسلنٹ کارپوریشن کمپنی کے چیف آپریٹنگ آفیسر (سی ای او) جناب علی رضا حسنین نے بتایا کہ آم کی تمام کٹائی پاکستان میں محکمہ پلانٹ پروٹیکشن کی نگرانی میں کی گئی تھی۔

انہوں نے مزید کہا ، "ہم نے خصوصی طور پر 250 گرام سے 600 گرام کے درمیان سائز کا آم چین بھیجا ہے ، اس ساری کھیپ میں نہ آم 600 گرام سے زیادہ اور نہ ہی  250 گرام سے کم ہے۔  سائز کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ، کیونکہ یہ قدرتی پھل ہے اور سائز پر کسی کا کنٹرول نہیں ہے۔"

انہوں نے سی ای این کا  بتایا  کہ کووڈ- 19 کے اس مشکل وقت کے دوران ، تمام ایس او پیز  پر مکمل عمل داری  کی گئی ، اور آم کو توڑنے والے اور پیک کرنے والے تمام عملہ کو قرنطین کروایا گیا۔

علی رضا نے کہا کہ ، "ان آموں کا ذائقہ اور مٹھاس ایک دوسرے سے بڑھ کر  ہے لہذا ایک بار جب آپ کھانا شروع کردیں تو آپ اپنے آپ کو  روک نہیں سکتے ۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم  جلد ہی سی چھوان اور گوانگ زو سے بھی نئے آرڈر کی توقع کر رہے ہیں۔"

چینی درآمد کنندہ اور یو این آئی انٹرنیشنل بزنس کنسلٹنسی کو لمییڈ کے چیئرمین مسٹر میکس ما نے سی ای این سے بتایا کہ میں بہت پرجوش ہیں کیونکہ 11 جون ان کے لئے ایک بہت بڑا دن ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستانی کمپنیوں کے ساتھ پندرہ  سالوں سے کام کررہے  ہے اور یہ پہلا موقع ہے جب ایک مکمل چارٹرڈ طیارہ آم لے کر  پاکستان سے چین آیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس تقریب کو چین اور پاکستان کے مابین سفارتی تعلقات کے قیام کی 70 سالہ تقریبات میں سے ایک  تقریب کے طور پر لے رہے ہیں۔

 

مسٹر میکس ما نے زور دیا کہ اگر ہم تازہ آم کی برآمدی مقدار میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں سڑک کے راستے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ ہوائی نقل و حمل بہت مہنگی ہے۔

 

لان چو  یونیورسٹی میں سندھ سے تعلق رکھنے والے پاکستانی طالب علم سلامت علی نے اپنی خوشی کا اظہار  کرتے ہوئے کہا کہ وہ گذشتہ تین سالوں سے یہاں زیر تعلیم ہیں اور اپنے آبائی شہر (صوبہ سندھ) کے آم کھانے سے قاصر ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ 11 جون ان کے لئے اور اس شہر  میں میقم پاکستانی عوام کے لئے بہت خوش آئند دن ہے کہ اب وہ پاکستانی آم کی مٹھاس کا مزہ چکھیں گے۔

واضح رہے کہ اس سے پہلے پاکستانی آموں کو جنوب مغربی صوبہ یونان کے شہر کھن منگ میں لانے کی اجازت  ہے ،جہاں سے وہ  ملک کے دیگر حصوں کی منڈیوں میں تقسیم کیاجاتا ہے  اور اب یہ پہلا موقع ہے جب کسی اور چینی شہر (لان چو) میں بھی پاکستانی آم کو براہ راست لایا جا سکتا ہے اس کے لیے مقامی حکومت نے خاص اجازت دے رکھی ہے۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ تاریخ میں کئی  بار پاکستانی آم کو چینی قائدین کے لئے قومی تحفہ کے طور پر بھیجا گیا۔ فروری 1964 میں ، جب وزیراعظم چُو این لائی پاکستان تشریف لائے تو ، پاکستان کے رہنماؤں نے انہیں آم قومی تحفہ کے طور پر پیش کیا۔ اسی طرح ، 1968 میں ، پاکستان کے وزیر خارجہ ، میاں ارشاد حسین نے چین کا دورہ کیا اور پاکستانی  چینی رہنما  چیئرمین ماؤ کو اچھے معیاری قسم کے آم بطور قومی تحفہ کے طور پر پیش کیے۔جسے بعد میں دوستی ، محبت اور امن کا پھل بھی کہا جانے لگا۔

 

  • comments
  • give_like
  • collection
Edit
More Articles